شعبہ جات

٭شعبہ جات ٭ جماعت رضائے مصطفی بریلی میں کئی شعبہ تھے ۔ ابتدا صرف اشاعت کتب کا شعبہ تھا ۔ مگر دو سال کے بعد اور کئی شعبہ قائم ہوگئے ، اور ہر شعبہ کا ایک عملہ متعین کردیا گیا ۔ تاکہ ہر شعبہ کا کام اپنے اپنے وقت پر بآسانی ہوتا رہے ،اور اس کام کی رفتار تیز تر ہوتی رہے ، جماعت رضائے مصطفی کے درج ذیل شعبہ تھے ۔ (١) شعبہ اشاعت کتب : (٢) شعبہ تبلیغ و ارشاد : (٣) شعبہ صحافیت : (٤) شعبہ سیاسیت ـ: (٥) شعبہ دالافتائ: شعبہ اشاعت کتب جیسا کہ آپ نے جماعت رضائے مصطفی کے اغراض مقاصد کا مطالعہ کیا ہے کہ جماعت کا ایک اہم مقصد ہے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا و دیگر علماء اہلسنت کی کتابوں کو شائع کرنا ــــ''شعبہ اشاعت کتب ''کی خدمات اچھی خاصی ہیں ، اس شعبہ کے تحت تقریبا ٥٠٠سو کتابیں شائع ہوئیں ۔ اور وقت فوقتا پوسٹر اور اشتہار ات بھی شائع ہوتے رہے ۔ اعلی حضرت قدس سرہ کے قلم وتحریر اور خط کو خوب پہنچانتا ہو ۔ اس کام کے لئے حافظ یقین الدین بریلوی کو متعین کیا گیا ۔۔۔۔۔۔اور صرف اعلی حضرت امام احمد رضا کی تصانیف کو شائع کرنے کی غرض سے مولانا حسنین رضا بریلوی نے محلہ سوداگران بریلی میں حسنی پریس اپنے والد استاد زمن مولانا حسن بریلوی کے نام سے قائم کیا ۔کتابت کے بعد تصحیح کا مرحلہ ہوتا ہے ۔مولانا حسنین رضا بریلوی کو ہی یہ ذ مہ داری سونپ دی گئی ، کہ طباعت کاکام انجام دلانے کے ساتھ ساتھ پروف ریڈنگ کا بھی کام کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔مولانا حسنین رضا بریلوی نے حسنی پریس سے کثیر تعداد میں کتابین شائع کیں ۔ مولانا اعجاز ولی خاں بریلوی نے بھی اشاعت کتب میں حصہ لیا ۔ اور جماعت کا کچھ بار اپنے سروں پر لیا ۔ پوسٹر و غیرہ انہیں کے اہتمام سے شا ئع ہوتے ، شعبہ اشاعت کتب ''کی تفصیل آئندہ کے صفحات پر ملاحظہ کریں ۔ شعبئہ تبلیغ و ارشاد جماعت رضائے مصطفی بریلی کا دوسرا اہم ــ''شعبہ تبلیغ وارشاد ''تھا ۔اس شعبہ کے ذریعہ دیگر شہروں اور دیہات میں علماء ومقررین روانہ کئے جاتے تھے ۔ اور باطل فروقوں کے رد کےلئے منظار بھی بھیجے جاتے تھے ۔ ائمہ مساجد کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا ۔ رمضان کے مہینہ میں حفاظ کی تقرری بھی ہوتی تھی ۔ ''شعبئہ تبلیغ وارشاد '' میں خصوصیت کے ساتھ یہ لوگ شامل تھے ۔ (١)مناظر اعظم مولانا حشمت علی خان رضوی لکھنوی ۔ (٢)ملک العلماء مولانا ظفر الدین رضوی بہاری ۔ (٣)شیر بیشئہ اہل سنت مولانا ہدایت رسول نوری رامپوری ۔ (٤)مداح الحبیب مولانا جمیل الرحمن خان رضوی بریلوی ۔ (٥)مولانا قطب الدین برہمچاری معروف پردیسی مولانا ۔ شعبئہ تبلیغ وارشاد کی جد جہد سے نہ جانے کتنے ہند ؤں نے اسلام قبول کیا ، وہابی اور غیر مقلد افراد نے توبہ کی ۔ اور اہل سنت سواد اعظم میں داخل ہوئے ۔ مناظرین کی طلبی جماعت رضائے مصطفی بریلی کے لئے ایک وہ زمانہ آیا جب مناظرہ کے اکھاڑے بہت سارے کھل گئے، اور ہر طرف سے چیلنج پہ چیلنج کرنے لگے۔ جماعت نے سب کا مقابلہ کیا ۔ اللہ تعالی نے اس اسلامی محمدی فوج کو فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھاکہ مناظر علماء کی طلبی کثرت سے ہوجاتی تھی۔اور لوگ عین وقت پر دفتر صدر رضائے مصطفی بریلی کو مطلع کرتے تھے، اس کے لئے جماعت کے معتمد عمومی قاضی احسان الحق نعیمی نے اخبار ات میں ایک اعلان شائع فرمایا: دفتر جماعت رضائے مصطفی یہ اطلاع دینا ضروری خیال کرتاہے کہ بسا اوقات ملک کے دور دراز مقامات سے مبلغین اسلام یا مناظرین کی طلب میں خط پہنچتے ہیں ۔ اور ان میں ضرورتیں دکھا کر علماء و مناظرین کو فورا بھیج دینے کی درخواست کی جاتی ہے ۔ اکثر احباب تاروں کے ذریعہ سے مناظرین کو طلب کرتے ہیں اور اتنا تنگ وقت دیتے ہیں کہ اگر مناظرین سے پہلی گاڑی چھوٹ جائے تو وہ وقت پر نہ پہنچ سکے، ایسے اصحاب کی خدمت میں گزارش ہے کہ مناظرہ کی تاریخ کا تعین دفتر جماعت مبارکہ کے مشورہ سے کیا کریں۔ اور اگر اتنا نہ ہوسکے تو کم از کم اتنا ہونا چاہئے کہ مناظرہ یا جلسہ کی تاریخ سے قبل دفتر کو اطلاع سے دیں تاکہ اگر مناظرین ، مبلغین کسی دوسرے مقام پر گئے ہوں، جیساکہ اکثر ہوتا رہتاہے تو دفتر انہیں اطلاع کرکے ٹھیک وقت پر بھیج سکے۔ مذکورہ اطلاع سے یہ بخوبی واضح ہوتاہے کہ جماعت رضائے مصطفی کا طریقہ کا رنہایت عمدہ اور پختہ تھا۔ اس کے مناظرین و مبلغین بھی اسلا کی راہ میں ہر مشقت اٹھانے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اور یہ بھی بخوبی معلوم ہوتاہے کہ اس زمانہ میں مناظرین کی طلبی کثرت سے تھی اور جماعت رضائے مصطفی کے مناظرین و مبلغین نے بڑی کامیابی اور جرأت و ہمت سے کا کیا۔ جماعت رضائے مصطفی کے مناظر علمائ جماعت رضائے مصطفی کا یاک شعبہ ''مناظرہ''کا بھی تھا ۔ چونکہ اسلام دشمن طاقتیں ہر وقت اسلا پر حملہ کر رہی تھیں ، اور نئے نئے لباس میں ملبوس ہو کر بے چارے سیدھے سادے مسلمانوں کو بہکا کر اپنے رنگ میں رنگ لیتے تھے۔ ایک طرف آریہ سماج ہندستان سے اسلام کو میٹنے کے درپے تھے، تو دوسری جانب خود اسلام کے نام لیوا ، اسلام کی بنیادوں کو ہلا رہے تھے ۔ کہیں قادیانیت کے روپ مین کوئی آجا تا ، اور کہیں و ہابیت ، غیر مقلدیت اور دیوبندیت کا روپ دھار کر نکل پڑتا۔۔۔ اسلا م و اہل اسلام کو چیلنج مناظرہ کرتا ، کہ اگر تم میں دم خم ہے تو آؤ میدان میں ۔۔۔غرضکہ ہر چہار جانب سے اسلام دشمنوں کا سیلاب تھا (اور اب بھی ہے)جس کو روکنے کے لئے ضروری تھا کہ ان کے چیلنج کو قبول کر کے میدان مقابلہ میں اتریں اور ان کے بطلان کو عیاں کردیں۔ اسلام کی بنیاد صرف صداقت اور حقیقت پر رکھی ہوئی ہے، ورنہ اسلام کو اب تک نہ جانے کہاں کہاں پہنچادیا گیا ہوتا ، مگر حقیقت و صداقت کو ٹھکرا یا نہیں جاسکتا ۔ حق کم رہ کر بھی کثرت پر حاوی رہتاہے ، اس کی قلت کے باوجود کثرت خوف زدہ ہوجاتی ہے۔ اسلامی جوش و جذبہ سارے جذبوں پر بھاری رہتاہے۔ جماعت رضائے مصطفی بریلی نے انہیں وجوہات کی بنیادوں پر ''شعبہ مناظرہ''قائم کیا ، اور اس میں اپنے زمانہ کے جید علماء و مناظرین کر رکھا ، جس کی مثال تاریخ نہیں پیش کر سکتی ۔ مناظر اعظم مولانا حشمت علی خاں اور ملک العلماء مولانا ظفر الدین رضوی بہاری اس شعبہ کے صدر تھے۔ ان شخصیات ک امد مقابل اپنے عہد میں ہندستان میں کوئی موجود نہ تھا۔ یہ دونوں اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قدس سرہ کے پروردہ فرزند اور اسلا م کے شیر ببر تھے ۔ مخالفین اسلام کو منٹوں میں زیر کردینا ان کا معمول تھا۔ ا شعبئہ صحافت جماعت رضائے مصطفی کا تیسرا شعبہ ''صحافت '' تھا اس شعبہ کے ذریعہ ہند ستان بھر میں جماعت رضائے مصطفی کے کار ناموں اور سر گرمیوں کو نشر کیا جاتا تھا ۔ اور جماعت رضائے مصطفی کے خلاف لکھے گئے مراسلوں ، مضامین اور خبر وں کا رد لکھا جاتا تھا ۔ جماعت رضائے مصطفی کے حامی کئی ایسے اخبار تھے جو اس کی سرگرمیوں کو سراہتے تھے ۔ اور اپنے مؤقر اخبار میں نمایا ں جگہ دیتے تھے 'مثلا ہفت روزہ دبدبئہ سکندر ی رامپوری ' ہفت روزہ الفقیہ امر ت سر ہمدم لکھنؤ روہلکھنڈ بریلی ' روز نامہ سیاست لاہور 'روز نامہ روزانہ اخبار بریلی ' اور اس وقت کچھ ایسے مجلات بھی تھے ۔ جو ماہ بماہ نکلتے تھے وہ بھی جماعت کی سرگرمیوں کو چھاپنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔جیسے ماہنامہ تحفئہ حنفیہ پٹنہ ، ماہنامہ آفتاب اسلام احمد آباد ، ماہنامہ السواد اعظم مرادا باد وغیرہ ۔ کچھ دنو کے بعد جماعت رضائے مصطفی نے اپنا ایک ترجمان بنام ''ماہنامہ یاد گار رضا بریلی ''جاری کیا ، جو کافی عرصہ تک جماعت رضائے مصطفی کی صحافتی میدان میں خدمات ، اور تعاقبات کی تفصیل دوسرے مقام پر مناسب جگہ پر دیدی گئی ہے ۔''شعبہ صحافت ''میں ادیب شہیر مولانا ابرار حسن حامدی صدیقی تلہر ، مولانا سید حبیب احمد مدنی محسنی ، مولانا نواب حمید احمد خاں بریلوی ایم ، ایل ،جی ، اور مولانا حسنین رضا خان بریلوی ، مولانا محمد احمد خان شاہجہان پوری ، اور مولانا مفتی محمد علی حامدی آنولوی خاص وطور سے قابل ذکر ہیں ۔ شعبئہ سیاست اس شعبہ کے ذریعہ ہند ستان میں اٹھنے والی نئی نئی تحریکات کا تعاقب ہوتاتھا ۔ اور یہ تعاقب ایسی تحریکات کا کیا جاتا تھا ۔ جو سیاست کے نام پر مذہب میں داخل ہوکر اسلام کی بیخ کنی کرتی تھیں ۔ اس شعبہ نے ہند ستان کی سیاست کے میدان میں قدم نہیں رکھا ، ہاں یہ ضرور ہے کہ سیاسی تحریکات کا بالغ رد کیا ۔ مثلا خلافت کمیٹی ، تحریک ترک موالات ، تحریک گاؤ کشی ، ہند و مسلم اتحاد ، اور تحریک آزاد ی وغیرہ ۔ جماعت رضائے مصطفی کا یہ مقصد ہر گز نہیں تھا کہ سیا سی اکھاڑے میں آکر اپنا پرچم لہرایا جائے ۔ بلکہ یہ نظریہ تھا کہ سیاست کے ذریعہ اسلام پر حملہ نہ کیا جائے ۔ اور مسلمانوں کا استحصال نہ ہو ، وہ کام انجام پزیر ہوں جو اسلام اور اہل اسلام کے لئے سود مند ہے۔۔۔۔۔۔جماعت رضائے مصطفی نے جن سیاسی لیڈروں کا رد کیا ، ان میں مسڑر گاندھی ، مولانا ابو الکلام آزاد ، مولان عبد الباری فرنگی محلی ، مولانا شوکت علی ، مولان محمد علی جناح اور مولانا عبد الماجد بدایونی قابل ذکر ہیں ۔ ہند ستانی سیاست پر مذکورہ لیڈر چھائے ہوئے تھے ، ان کا رد کرنا گویا کہ شیر کے منہ میں پنجہ ڈالنا ہے ۔ مگر جماعت رضائے مصطفی کے ''شعبہ سیاست ''نے اس کی پروہ کبھی بھی نہ کی ۔ اور اعلاء کلمتہ الحق کا فریضہ ہمیشہ انجام دیا ۔ شعبئہ دارالافتائ بریلی کی شان افتا ء عرصئہ دراز سے معروف تھی ، یہاں پر مولانا رضا علی خان (جد امجد امام احمد رضا)کے دور سے آج تک فتویٰ نویسی کی خدمت چلی آرہی ہے ۔ جماعت رضائے مصطفی کا یہ چوتھا شعبہ پڑی اہمیت کا حامل تھا ۔ اس رضوی دار الافتا ء سے بر صغیر ہی نہیں بلکہ دیگر بر اعظموں تک فتاویٰ جایا کرتے تھے ۔ ایک عام شخص سے لیکر اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تک ، شریعت کے معاملے میں رضوی دار الافتاء کے دروازے کھٹکھٹاتا تھا ۔ جماعت رضائے مصطفی نے اس شعبئہ افتاء میں ماہر مفتیان کرام کی رتقرری کی ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے شاگردوں میں نواب مرزا بریلوی ، مولانا مفتی سلطان احمد خاںبریلوی ،مفتی محمدرضاخان بریلوی ، مفتی عبد الرشید بہاری ، مولانا ابرار حسن صدیقی تلہر ، مولانا حشمت علی خان لکھنوی ، مفتی محمد علی حامدی ، فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دےتے تھے ۔ ۔۔۔جماعت رضائے مصطفی بریلی کے شعبہ رضوی دار الافتاء کے چشمئہ دارالافتاء بریلی ''کے نام سے مستقل ایک زمانہ تک ہفت روزہ دبدئہ سکندری رامپور میں چھپتے رہے ۔ (١)ماہنامہ تحفئہ حنفیہ پٹنہ میں بھی فتاویٰ شائع ہوتے تھے۔ ان فتاویٰ پر اکژاعلیٰ حضرت یا حجۃ الاسلام مولانا حامد رضاکی تصدیق ہوا لرتی تھی ۔ بعض اخبارات میں یہ دیکھنے کو ملا کہ قارئین اخبار ایک عام سوال شائع کرادےتے ـ'او ر جواب کے لئے عام مفتیان کرام کو اجازت ہوتی ، مگر کوئی مفتی قلم نہ اٹھا تا 'بالآخر وہ قارلکھتا کہ ''جماعت رضائے مصطفی بریلی کے مفتیان کرام سے امید ہے کہ وہ شافی وکافی جواب عنایت کرےں گے ''۔۔۔۔۔۔۔جماعت رضائے مصطفی کے شعبئہ دارالافتاء سے جاری شدہ فتاویٰ کی تعداد لاکھوں کے قریب ہوگی ۔ سب محفوظ نہ رہ سکے ، ہاں جو فتاویٰ اخبار ات میں اور رسائل میں شائع ہوئے وہ آج بھی محفوظ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ سارا ذخیرہ جلد از جلد منظر عام پر آجائے ، اور عامئہ مسلمین اس سے استفادہ کر سکیں ۔ (آمین )
|  HOME  |